کتنی دل کش ہیں تیرے عارض و لب کی یادیں
کس قدر توبہ شکن ہے تری زلفوں کا خیال
کتنا پر کیف تصور ہے تری آنکھوں کا
تاب کس کو ہے جو دیکھے تری قامت کا جمال
تجھ کو اک پھول کہوں چاند کہوں خواب کہوں
ذہن شاعر میں بیک وقت یہ ابھرے ہیں سوال
تیرے چہرے کو سبھی ایک کنول کہتے ہیں
اور ہم تجھ کو سراپائے غزل کہتے ہیں
میرے جذبات فراواں مرے زخموں کے نشاں
تیری دزدیدہ نگاہی کا گلہ کرتے ہیں
ہر گھڑی پھول دمکتے ہوئے رخساروں کے
میرے احساس کے گلشن میں کھلا کرتے ہیں
کیا بتاؤں تجھے اپنے دل بیتاب کا حال
کتنے دیپک مرے سینے میں جلا کرتے ہیں
بے نیاز غم ایام مرے ذہن و نظر
گم سراب لب و عارض میں رہا کرتے ہیں
تری آواز کے شعلوں میں سحر جلتی ہے
مسکراہٹ میں تری برق تپاں پلتی ہے
لیکن اے جان سخن تجھ کو خبر ہے کہ نہیں
میرے کاشانۂ غربت پہ نظر ہے کہ نہیں
تو کہ پروردۂ آغوش نسیم گلشن
جسم سیمیں پہ یہ زرتار ترے پیراہن
گرم جھونکوں کی عنایت سے بچیں گے کب تک
خار زار غم ہستی میں رہیں گے کب تک
مطرب وقت کہیں چھیڑ نہ دے تلخ غزل
ڈر ہے مسمار نہ ہو جائے یہ نغموں کا محل
جان جاں سلسلہ خوابوں کا کہیں ٹوٹ نہ جائے
تیرے ہاتھوں سے کہیں جام وفا چھوٹ نہ جائے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.