Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سرسید کے مزار پر

محمد صادق ضیا

سرسید کے مزار پر

محمد صادق ضیا

MORE BYمحمد صادق ضیا

    چراغ علم روشن ہے حقیقت کی ہواؤں پر

    حکومت کر رہا ہے ایک گوشے سے فضاؤں پر

    یہ سر سبزی و شادابی جو ویرانی کا حاصل ہے

    رگوں میں اس کی پوشیدہ تموج خیز اک دل ہے

    ابھی تک خاک میں اس کی ہے جوش ارتقا باقی

    لحد پر گھاس کے پتوں میں ہے نشوونما باقی

    ابھی تک انجمن میں گونج باقی ہے صداؤں کی

    ابھی تک کھیلتی ہے خاک سے شوخی ہواؤں کی

    یہ بزم خواب سرسید یہ نقش عظمت رفتہ

    مے ایثار سے لبریز ہے اک جام نورانی

    محبت کی طرح آباد رکھے گا خدا اس کو

    مٹا سکتی نہیں دنیائے حادث کی ہوا اس کو

    میں ذوق علم لے کر تربت سید پر آیا ہوں

    عقیدت کے شگفتہ پھول اپنے ساتھ لایا ہوں

    تری وحشت لئے پھرتی ہے گرم جستجو مجھ کو

    سکوں اندوز ہونے کی بہت ہے آرزو مجھ کو

    فضاؤں میں محبت کی حقیقت آشنا ہوں میں

    اک آغوش ادب میں پرورش پاتا رہا ہوں میں

    بقدر ذوق تکمیل تمنا کی تمنا ہے

    اسی آغوش میں معراج فردا کی تمنا ہے

    تمنا ہے جہان علم میں چمکوں سہا بن کر

    جمود ظلمت ہستی پہ چھا جاؤں ضیا بن کر

    تمنا ہے کہ دنیا مجھ سے یکسر نور ہو جائے

    یہ تاریکی سمٹ کر ایک دن کافور ہو جائے

    تمنا ہے کہ سرسید بنوں یا شبلیؔ و حالیؔ

    کہ ان ارباب محفل کی ابھی تک ہے جگہ خالی

    الٰہی خاک سرسید سے کچھ چنگاریاں دے دے

    مذاق دل ترستا ہے تپش سامانیاں دے دے

    مری قسمت میں اس مے خانے کا ساغر نہیں یا رب

    عوض میں اس کے مجھ کو مشرب‌‌ پیر مغاں دے دے

    جہاں اک طائر سدرہ کسی دن چہچہایا تھا

    انہیں شاخوں پہ مجھ کو اختیار آشیاں دے دے

    جو میرے ساز فطرت میں نیا اک سوز بھرنا ہے

    تو جوہرؔ اور ظفرؔ کیسی زبان نغمہ خواں دے دے

    مجھے درکار ہے پھر ملک و ملت کی حدی خوانی

    نذیرؔ و شبلیؔ و حالیؔ کا انداز بیاں دے دے

    غبار رہ گزار دہر میں آلودگی کب تک

    مرے زریں تصور کو بساط کہکشاں دے دے

    دماغ و ذہن میں اک جنگ برپا ہے خیالوں کی

    اسے ہموار کر کے اک سکون جاوداں دے دے

    اگر ہے قافلے کے ساتھ چلنا میرا نا ممکن

    تو مجھ کو رہنما کر دے مجھے اک کارواں دے دے

    زمیں پر پاؤں پھیلانے کی گنجائش اگر کم ہے

    مجھے بادل بنا دے سیر کو اک آسماں دے دے

    اگر تخئیل سرسید ہے اب گلدستۂ ماضی

    جوانی کی امنگوں کو نئی انگڑائیاں دے دے

    پیام کامیابی دے مجھے ایوان رفعت سے

    میں خالی ہاتھ جا سکتا نہیں سید کی تربت سے

    مأخذ :
    • Sub.h-e-Mashriq (1931 ta 1938)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے