سر ہستی
اپنی ہستی کو نہ سمجھا جو وہ انساں ہوں میں
کون ہوں کیا ہوں اسے سوچ کے حیراں ہوں میں
ہوں گل تر کوئی یا خار مغیلاں ہوں میں
درد سر ہوں کہ کسی درد کا درماں ہوں میں
راز ہوں دیدۂ ادراک سے پنہاں ہوں میں
لاکھ سر مارا مگر عقدۂ معنی نہ کھلا
کون ہوں کیا ہوں میں صد حیف نہ سمجھا اصلاً
نقش مٹ مٹ کے بنا ذہن پہ بن بن کے مٹا
وہ جو تصویر کے سانچے میں کبھی ڈھل نہ سکا
اک مصور کا وہ تخئیل پریشاں ہوں میں
وہ جو جنت سے نکالا گیا آدم میں ہوں
نار گلزار ہوئی جس پہ وہ محرم میں ہوں
میں ہی نمرود ہوں فرعون مجسم میں ہوں
میں ہی موسیٰ ہوں دم عیسیٰٔ مریم میں ہوں
پھر بھی اک خامشیٔ گور غریباں ہوں میں
دور ظلمت کا ہر اک نقش مٹایا میں نے
وہم کو در حقیقت سے سجایا میں نے
مشعل راہ عمل کن کو بنایا میں نے
جب سے تدبیر کو سینے سے لگایا میں نے
اپنی تقدیر سے بھی دست و گریباں ہوں میں
میں جو چاہوں غم ہستی کا ازالہ کر دوں
ظلمت بخت کو اک پل میں اجالا کر دوں
دیر کو کعبہ تو کعبہ کو شوالہ کر دوں
ذرہ ذرہ کو جہاں کے تہ و بالا کر دوں
پا بہ جولاں ہوں مگر حشر بہ داماں ہوں میں
قعر دریا کو جو چاہوں تو کنارہ کر دوں
غیظ میں آؤں تو پانی کو شرارہ کر دوں
مثل سیماب سمندر کو دو پارہ کر دوں
چاند ٹکڑے ہو جو انگلی سے اشارہ کر دوں
اپنی قوت پہ خود انگشت بدنداں ہوں میں
ہے مسلم ابدی خالق اکبر کا وجود
روز روشن میں ہو جیسے شہ خاور کا وجود
بے حقیقت ہے مگر خاک کے پیکر کا وجود
ناتواں ذرے سے بڑھ کر نہیں منظر کا وجود
قطرۂ آب ہوں اشک سر مژگاں ہوں میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.