ستاروں کی آواز
چلتے چلتے مری نیند ٹوٹی تو دیکھا
ہر اک سمت تاریک اسرار
پتھر کی مانند
رستے کی دیوار تھے
پھر ستاروں نے پیغام رفعت دیا
اور خوابوں کے جھونکے
میرے ذہن معصوم میں لہلہانے لگے
میرے پر پھڑپھڑانے لگے
پھر بھی پرواز کے واسطے میں نے جنبش جو کی
میں نے دیکھا کہ بے چارگی
میرے قدموں کی زنجیر بننے لگی
میں فقط ایک بے بال و پر
تنگ و تاریک غاروں کا انسان تھا
پھر ستاروں نے آواز دی
یہ ستارے جو انساں کی آواز ہیں
یہ ستارے جو انسان کی روح پرواز ہیں
ان کی آواز پر میں نے جنبش جو کی
میری زنجیر ٹوٹی
مرے دیوتا مجھ سے سہمے ہوئے
مجھ سے کچھ دور پر دست بستہ کھڑے تھے
میں آگے بڑھا
میری یلغار سے بحر و دشت و جبل زر اگلنے لگے
میں بہت خوش ہوا
اور اس زر سے اک آسماں تک پہنچنے کی سیڑھی بنانے لگا
ایک زریں چمکتا ہوا زینۂ آسمانی
اور آگے بڑھا
اب مرے ہاتھ دھرتی سے اوپر فضاؤں میں لہرا رہے تھے
مگر وہ ستارے بہت دور تھے میرا زینہ بہت مختصر تھا
تو پھر
میں نے انکار کے پر لگا کر جو پرواز کی
میرا زینہ ہی مجھ سے الجھنے لگا
اور غاروں کے وہ دیوتا
طنز سے مسکرانے لگے
پھر ستاروں نے آواز دی
اپنے ہاتھوں سے خود اپنے زینے کو نیچے گرا کر بڑھا
میں فضا میں اڑا
اور وہ وقت بھی آ گیا
جب حدود ہوا
میری پرواز کی راہ میں ایک دیوار سی بن گئی
دیوتا مسکرانے لگے
پھر ستاروں نے آواز دی
میری ہمت بڑھی
اپنے خوابوں کی دنیا سمیٹے ہوئے
میں بڑے عزم کے ساتھ دھرتی پر اترا
خلاؤں میں پرواز کی
آج پہلا قدم چاند پر ہے مگر
ہیں ستارے ابھی دور تاریکیوں میں کہیں جلوہ گر
ان کی آواز گیتوں کے سرگم میں بھر لی مگر
اب وہی میرے پاؤں کی زنجیر ہیں
ایک ضدی سی زنجیر ہیں
دیوتاؤں نے جس کو بنایا مجھے روکنے کے لئے
اور ستاروں نے آواز دی ہے سدا
میرے خوابوں کا لشکر امیدوں کا سورج لیے
میرے گیتوں کی دنیا میں نغموں کے بادل
پر اڑنے لگا
اور یہ بادل چمکنے لگے کہکشاں کی طرح
اور اب دیوتا
تنگ و تاریک غاروں میں خود کو چھپانے لگے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.