ستمگر
تم مجھ پر وارد ہوئے
اک ستم گر کی طرح
مئی کی وہ شام تھی
مجھے آج بھی یاد ہے
سفید رنگ کی شرٹ پہنے
ہاتھ میں اخبار رول کئے
تم پنڈال کی کرسی پر براجمان تھے
پہلی نظر میں تم عام سے تھے
جیسے تم عاشق ہو اور میں محبوب
میری نظر کا لمس تمہیں خاصا خاص کر گیا
دیکھو
کہانی نے پلٹا کھایا
تم محب بن گئے اور میں دیوانی کہلائی
میرے آتے ہی تم سمٹ گئے
تب سے آج تک ویسے ہی میری روح میں
ایک کونپل کی طرح سمٹے بیٹھے ہو
میں منتظر ہوں
کب احساس کا نازک پرندہ انگڑائی لے
تم اپنی بانہیں پھیلائے
اسی پنڈال کی اسی کرسی پر
گہری خاموشی سے شور کرتے ہوئے
میری طرف بڑھو
کہ دیکھنے والوں کو پاکیزہ محبت
رقص کرتی دکھائی دے
جس میں نہ نمائش ہو نہ ہوس
بس اک سرور ہو
اور میں
میں زمین کے اسی بے بس بے حس ٹکڑے پر آنکھیں موندے تمہیں دیکھتی رہوں
پچھتاوے کا جال آج تک مجھے لپیٹ میں جکڑے ہے
میں کسی اسیر زادی کی طرح
اپنی قید کو تقدیر کا لکھا جان کر خوش ہوں
میں اظہار و اقرار سے بری
اپنی خواہش پر حیا کی چادر ڈالے
محبت کا طوق گلے میں لٹکائے
خموشی کو لبوں پر سجائے
نا امیدی کو شکست دیتے ہوئے
گونگی بہری اندھی محبت پر اکتفا کئے ہوئے ہوں
کہ اسیر خواہش و فرمائش کا حق نہیں رکھتے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.