سیاہ جھاڑیاں اب بھی منتظر ہیں
یہیں سے گزرا تھا
کاروان شیشہ گراں
تم کو معلوم ہے پا شکستہ راہی
دراز اونٹوں پہ پھوٹتی شعاعیں
سبز لال نیلی رو پہلی آگے
دراز قد شیشہ گر سارباں
تمکنت سے مہار تھامے
وہ کارواں تو منزل سے جا ملا ہے
سارباں
محمل پہ جلوہ افروز ہیں دراز
اونٹوں پہ ان کے دراز قد
اب دراز تر ہیں
متاع شیشہ گری
چور چور بکھری ہے راہوں میں
ریزہ ریزہ
ہوا میں تحلیل ہو گئی ہے
اداس راہی
تم جو پا برہنہ نکلے تھے دھرتی کے لمس کی آرزو میں
چنچل ہوا کی آغوش میں زندگی کی اساس پانے
دیکھو
تمہارے قدم لہولہان ہیں ہوا کے بوسے تمہارے
تشنہ لبوں کو مجروح کر رہے ہیں
وہ کون ہیں کیا تمہارے ساتھی ہیں وہ جنہوں نے
اس شاہراہ سے ذرا ہٹ کر رنگین پلاسٹک کے
خیمے لگا لیے ہیں وہ کون ہیں جو پلاسٹک کے
دبیز ملبوس میں پلاسٹک کی نقابیں جوتے
اس دھج سے زخمی زمین کے سینے پر گامزن ہیں
شکستہ راہی
جو ہو سکے تو پاگل ہوا سے پوچھو
سیاہ جھاڑیوں میں کتنے فگار جسم
وہ سب جو نکلے تھے دھرتی کے لمس کی آرزو میں
جو ہو سکے تو زخمی ہوا کے سینے پہ اب
یا فگار دھرتی پہ اپنے لہو سے تم اپنا نام لکھ دو
سیاہ جھاڑیاں اب بھی منتظر ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.