سوچئے
جشن جمہور منانا ہے مگر سوچو تو
جشن جمہور منانے کا ہمیں حق بھی ہے
ملک آزاد ہوئے ہو گیا عرصہ لیکن
وہی سرمایہ پرستی ہے وہی ناداری
بکریاں آج بھی پیاسی نظر آتی ہیں مجھے
گھاٹ پر اب بھی ہے شیروں کی اجارہ داری
ہاں وہی لوگ زمانہ جنہیں کہتا ہے غریب
اب تو پہلے سے بھی چھوٹے نظر آتے ہیں مجھے
نظم جمہور کی سوگند پلانوں کی قسم
سیٹھ جی اور بھی موٹے نظر آتے ہیں مجھے
ہے دماغوں میں وہی فرقہ پرستی کا جنوں
یوں تو کہنے کو ہے آئین وطن جمہوری
گائے بیلوں پہ جھگڑتے ہیں ابھی تک انساں
آج بھی شیخ و برہمن میں ہے کتنی دوری
ہیں ابھی عہد غلامی کی وہ فرسودہ رسوم
حد تہذیب و تمدن سے ہر ایک آؤٹ ہے
دیکھیے جشن مسرت کا نرالا انداز
گھر منور ہیں دماغوں میں بلیک آؤٹ ہے
حیثیت اتنی سی رکھتا ہے یہ جشن جمہور
بغض کا دیو کسی روز تو سو جاتا ہے
اس بہانے ہی مرے دیس میں اک سال کے بعد
ایک دن ذکر مساوات تو ہو جاتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.