عزیزم
تم یہ کیا جانو
کہ جس کو بھوک کہتے ہیں
وہ کیا عفریت ہے
کیسے نگل جاتی ہے ہر احساس کو
انساں نگل سکتے ہیں اک دوجے کو کچا بھی
جو سچ پوچھو کسی رشتے کے کچھ معنی نہیں رہتے
عجب پاگل سے لگتے ہیں
یہ دانشور جہاں بھر کے
بھرا ہو پیٹ تو یہ آرٹ کلچر اور ٹریڈیشن
سبھی کچھ سوجھنے لگتا ہے سب کچھ یاد آتا ہے
فروغ فن ہے ممکن جب نہ کوئی فقر و فاقہ ہو
کرونا کے دنوں میں کیا ہوا تھا یاد ہے تم کو
سبھی اشیائے خورد و نوش کو محفوظ کرنے کو
لئے جاتے تھے بھر بھر کر ٹرالی
لوگ کچھ ایسے
کہ جیسے پھر کبھی ان کو
نہ کھانے کو ملے گا ایک تنکا زندگانی میں
نہ چھوڑا تھا انہوں نے کچھ بھی باقی
ان اسٹوروں میں
نہ اوروں کا انہیں اک پل ذرا سا بھی خیال آیا
خریداری کی خاطر
دوسرے جو لوگ آئے تھے
وہ خالی جا رہے تھے
کس قدر مایوس لگتے تھے
انہیں یہ لگ رہا تھا اب کہ شاید قحط اترا ہے
ذرا سوچو کہ جن خطوں میں جاری
قحط ہے کب سے
وہ کیسے جی رہے ہیں مر رہے ہیں دور نظروں سے
فقط ہم دیکھتے سنتے ہیں ٹی وی پر
یا پھر خبروں میں پڑھ کر
چند لمحے سوچ میں پڑ کر
دوبارہ زیست کی سرگرمیوں میں
لوٹ جاتے ہیں
عزیزم
ہے دعا میری
کبھی غربت نہ تم دیکھو
نہ ہرگز بھوک سے ہی آشنائی ہو
سبھی قدروں کو یہ پامال کر کے
ایک انساں کو
بنا دیتی ہے وحشی اور درندہ
اور بے حس بھی
دکھائی جس کو کچھ دیتا نہیں ہے
بھوک سے بڑھ کر
کہ تم سونے کا چمچہ لے کے اس دنیا میں آئے ہو
تمہیں معلوم کیا
اس بھوک کی یہ آگ کیسی ہے
چلو اچھا ہے تم ناآشنا ہو
اس مصیبت سے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.