صبح شب انتظار
یہی وہ منزل مقصود ہے کہ جس کے لئے
بڑے ہی عزم سے اپنے سفر پہ نکلے تھے
اسی گھڑی کی تمنا میں جانے کتنے لوگ
جو بے خطا تھے مگر سولیوں پہ لٹکے تھے
یہ سوچتے تھے کہ وہ دن کبھی تو آئے گا
تمام حسرتیں دل کی نکل ہی جائیں گی
ہمارے پاؤں کی یہ بیڑیاں یہ زنجیریں
کبھی تو موم کی صورت پگھل ہی جائیں گی
کچھ اس طرح سے بڑھا دل میں ذوق آزادی
کہ رفتہ رفتہ تمنا جوان ہوتی گئی
کچھ اس طرح سے اٹھی ہر طرف سے وہ آندھی
جو اٹھتے اٹھتے خود اک آسمان ہوتی گئی
نگاہ کو تھی مگر میر کارواں کی تلاش
نظر جو اٹھی تو دیکھا کہ ایک مرد فقیر
کھڑا ہے حوصلۂ امن و آشتی لے کر
نہ کوئی خود بدن پر نہ ہاتھ میں شمشیر
چراغ راہ میں اس کے عمل سے جلنے لگے
لو آج صبح شب انتظار آ ہی گئی
فضا مہکنے لگی دل نواز پھولوں سے
دیار ہند میں فصل بہار آ ہی گئی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.