سخنورانِ عہد سے خطاب
اے نکتہ وران سخن آرا و سخن سنج
اے نغمہ گران چمنستان معافی
مانا کہ دل افروز ہے افسانۂ عذرا
مانا کہ دل آویز ہے سلمیٰ کی کہانی
مانا کہ اگر چھیڑ حسینوں سے چلی جائے
کٹ جائے گا اس مشغلے میں عہد جوانی
گرمائے گا یہ ہمہمہ افسردہ دلوں کو
بڑھ جائے گی دریائے طبیعت کی روانی
مانا کہ ہیں آپ اپنے زمانے کے نظیریؔ
مانا کہ ہر اک آپ میں ہے عرفی ثانی
مانا کی حدیث خط و رخسار کے آگے
بے کار ہے مشائیوں کی فلسفہ دانی
مانا کہ یہی زلف و خط و خال کی روداد
ہے مایۂ گل کاریٔ ایوان معافی
لیکن کبھی اس بات کو بھی آپ نے سوچا
یہ آپ کی تقویم ہے صدیوں کی پرانی
معشوق نئے بزم نئی رنگ نیا ہے
پیدا نئے خامے ہوئے ہیں اور نئے مانیؔ
مژگاں کی سناں کے عوض اب سنتی ہے محفل
کانٹوں کی کتھا برہنہ پائی کی زبانی
لذت وہ کہاں لعل لب یار میں ہے آج
جو دے رہی ہے پیٹ کے بھوکوں کی کہانی
بدلا ہے زمانہ تو بدلیے روش اپنی
جو قوم ہے بے دار یہ ہے اس کی نشانی
اے ہم نفسو یاد رہے خوب یہ تم کو
بستی نئی مشرق میں ہمیں کو ہے بسانی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.