سنو اے لڑکے
تمہاری آنکھوں کے سیاہ حلقے
تمہاری پھیکی پڑی یہ رنگت
تمہارا یہ مرجھایا ہوا چہرہ سب بتا رہا ہے
کہ کس طرح تم نے خود کو نوچ کھایا
آخر کب تک یہ کہانیوں میں بسے کرداروں میں
تم خود کو دیکھتے رہو گے
دیکھو محبت کوئی ماں کا لعل نہیں
جسے تم نے سینے سے لگا لیا ہے
کب تک افسانوی کہانیوں کے کرداروں کو
خود سے جوڑتے رہو گے
دیکھو لڑکے کوئی اپنی ماں کا خیال کرو
جو سارا دن مصلے پر دعاؤں کے پہاڑ تعمیر کرتی رہتی ہے
کب تک یوں پاگلوں سے ادھار لیے قہقہوں سے
تم اپنی ماں سے ملتے رہو گے
شام کو گھر لوٹتا ہر پرندہ مجھ سے تیرا پتا پوچھتا ہے
اور میرے پاس اداسی کی ایک آہ کے علاوہ کچھ بھی نہیں
سنو اے لڑکے لوٹ آؤ کافکا کی ان کہانیوں سے
جنہیں وہ چاہ کر بھی جلا نہ پایا
اے میرے شاعر تم نکل آؤ اس دنیا سے
دیکھو محبتوں میں یہ سب تو ہوتا ہی رہتا ہے
کسی کو چاہا جاں سے بڑھ کر
پھر اگلے ہی لمحے اسے بھلایا
یہ محبتوں کا رواج ہے
سنو اے لڑکے کب تک یوں خود کو ورجینیا کی طرح
ناامیدی کے خطوط لکھتے رہو گے
تمہارے ٹیبل پر ان ڈپریشن کی ادویات کا کیا کام
تمہارے کمرے کا یہ ماحول کسی اداس جنگل جیسا کیوں ہے
یہ تمہاری ڈایری کے اوراق پر لگا خون کیسا
یہ سگریٹوں کے ٹکڑے یہ چند پرانے خطوط
یہ تمہاری چارپائی کے نیچے تھوکا خون کیسا
یہ تمہارے بازوؤں پر زخم کیسے
یہ ناامیدی کی کتابوں سے بھرا کمرا
او میرے خدا اے لڑکے تم کن راستوں پہ نکل چکے ہو
خدا کے لیے تم خود پہ تھوڑی توجہ دے دو
لوٹ آؤ اے میرے شاعر
اس سے پہلے کہ تم کسی اداس کہانی کا کردار بن جاؤ
لوٹ آؤ اے میرے شاعر لوٹ آؤ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.