سقراط کی بیوی
کہتے ہیں بڑی تیز تھی سقراط کی بیوی
خاوند سے بس لڑتی ہی رہتی تھی وہ دن رات
سقراط کے اپنے ہی مشاغل کی تھی بہتات
حیران تھا کیوں کر ہو بسر ایسے میں اوقات
ایسے میں کہاں فلسفہ سوجھے ہے کسی کو
چلتا رہے ہر وقت جہاں دور خرافات
حیران تھا بے چارہ کرے بھی تو کرے کیا
قابو میں نہ بیوی تھی نہ بگڑے ہوئے حالات
کج فہم تھی ضدی تھی قیامت تھی سراسر
سقراط کو دیتی تھی وہ صلوٰۃ پہ صلوٰۃ
چپ رہتا مگر سوچتا تھا دل میں یہ اکثر
کیا جانیے کب تک رہے یہ صورت حالات
تنگ آ کے مخاطب ہوا بیوی سے وہ اک روز
اے جان وفا مجھ کو بتا سن کے مری بات
میرا وہ گنہ کیا ہے خطا کیا ہے وہ میری
کس جرم کی پاداش میں ملتی ہے یہ سوغات
یہ سن کے وہ چپ ہو گئی پھر طیش میں آئی
سقراط کی دی پیٹھ پہ بس دفعتاً اک لات
کہنے لگی تو بدھو کا بدھو ہی رہا حیف
سمجھے نہ تری آنکھ نے قدرت کے اشارات
اے فلسفی کیا سوچ کے کر بیٹھا تھا شادی
جو جرم کیا تو نے یہ اس کی ہے مکافات
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
شادی جو رچاتا ہے وہ پچھتاتا ہے دن رات
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.