سقراط کی موت
موت کا فرمان سن کر
یوں لگا سقراط کہنے
اے مرے فرماں رواؤ
اے وطن کے رہنماؤ
موت سے مجھ کو ڈرا کر
تم یہ کیا فرما رہے ہو
راستی کو چھوڑ دوں میں
گیان کا دیپک بجھا دوں
سانچ کا سودا نہ بیچوں
میں صداقت کا پیمبر
محرم راز حقیقت
مظہر نور خدا ہوں
راستی کا پاسباں ہوں
آدمی کے دل سے مجھ کو
دور کرنا ہے اندھیرا
زندگی جب تک رہے گی
میں یہی کرتا رہوں گا
موت سے ڈرتا نہیں میں
موت میری زندگی ہے
موت میری آبرو ہے
کھینچ لو میری زباں تم
یا مری گردن اڑا دو
مجھ کو سولی پر چڑھا دو
خواہ زندہ ہی جلا دو
یہ مگر مجھ سے نہ ہوگا
راستی کو چھوڑ دوں میں
گیان کا دیپک بجھا دوں
سانچ کا سودا نہ بیچوں
لاؤ یہ جام ہلاہل
میرے ہونٹوں سے لگا دو
چھین لو گفتار میری
ختم کر دو زندگی کو
ہاں مگر اتنا بتا دوں
میں کبھی مرتا نہیں ہوں
میں ہوں ایسا تند شعلہ
موت کے طوفان سے بھی
جو کبھی بجھتا نہیں ہے
میری ہستی جاوداں ہے
جاوداں میرا تکلم
میرے لب تم سی سکو گے
صور اسرافیل ہوں میں
خاک ہو جاؤں گا پھر بھی
گفتگو کرتا رہوں گا
درس حق دیتا رہوں گا
ماہ و انجم کی ضیا سے
نکہت باد صبا سے
لالہ و گل کی مہک سے
صبح خنداں کی دمک سے
یہ صدا آتی رہے گی
سچ کبھی ڈرتا نہیں ہے
سچ کبھی مرتا نہیں ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.