سرور
دیکھ کے تجھ کو یہ آتا ہے کہ لکھوں میں غزل
سوچتا ہوں میں یہی پھر کہ ضرورت کیا ہے
حسن پہ تیرے یہ رعنائی تری شان جو ہے
یہ تری زلفوں میں خم جو ہے سراپے کی شبیہ
تیرے نینوں کی کجی جو ہے اداؤں پہ عروج
سرخیٔ لب کہ جو مذبح ہے تمناؤں کا
تیرا جوبن کہ جو شرمندۂ صد فتنہ ہے
سکر یہ تیرے حضوری کا بیاں کیسے ہو
جس کی مستی میں مقید ہیں سبھی کے اذہان
شعر و نغمے اسی سرشاری کے دو گانے ہیں
تم تو خود ہی ہو غزل جس پہ تغزل ہے نثار
اور اسے پڑھنا جو چاہوں تو نہ اس کا اتمام
اور لفظوں میں اتاروں تو ہر اک لفظ سرور
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.