گھر سے نکلتے ہی
میری پیٹھ سے چپک جاتی ہیں دو آنکھیں
گلی پار کرتے کرتے بیس آنکھیں
بس اسٹاپ تک پہنچتے پہنچتے دو سو آنکھیں
میٹرو اسٹیشن کی سیڑھیاں چڑھتے چڑھتے دو ہزار آنکھیں
کوچ میں اپنی سیٹ پکڑتے پکڑتے بیس ہزار آنکھیں
چپک جاتی ہیں میرے پورے بدن سے
اور میں دب جاتا ہوں ہزاروں آنکھوں کے ایک پرامڈ کے نیچے
بڑی مشکل سے خود کو کھڑا کرتے ہوئے
جھٹکتا ہوں میں اپنے سر اور دونوں ہاتھوں کو
اور پورے کوچ کے فرش پر بکھر جاتی ہیں آنکھیں ہی آنکھیں
یہ چھوٹی بڑی آنکھوں کی چتکبری مچھلیاں
اپنے تیز نکیلے ڈنک لیے بڑھتی ہیں میری طرف
اور میں بھاگتا ہوں مسلسل پیچھے کی طرف
جیسے شارپ شوٹر کو دیکھ بھاگتا ہے کوئی ٹارگٹ
مسلسل پیچھے کی طرف بھاگتے ہوئے میں مانگتا ہوں دعا
آخری کوچ کی دیوار تک پہنچنے سے پہلے
آ جائے کوئی اسٹیشن
کھل جائے کوئی دروازہ
اور میں جھٹکے سے کود کر پا سکوں نجات
مگر اسٹیشن آنے پر
میٹرو کا دروازہ بھی غلط دشا میں کھل گیا ہے
جدھر نظر کی حد تک صرف ایک لمبا پلیٹ فارم ہے
جہاں جگہ جگہ پر چھوٹی بڑی آنکھیں جڑی ہوئی ہیں
مگر کود جانے کے لیے کوئی پٹری نہیں ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.