محصور ہوں پانی سے میں
پر تشنگی سے چور ہوں
میرا وجود اک جام ہے جام تہی
خنداں ہیں جس کے چار سو
مے سے بھرے مینا سبو
پہلی کرن پھوٹی کہ اک کرب نہاں
جاگ اٹھتا ہے لیتا ہوا انگڑائیاں
دن جیسے جیسے ہوتا جاتا ہے جواں
جوالا مکھی سا کھولنے لگتا ہے سینے کا لہو
میں اک سلگتی آرزو میں ایک تپتی زندگی
پہنائے امکانات میں جولاں بگولوں کی طرح
سرگشتہ اپنے ہی خیالوں کے ہیولوں کی طرح
خنجر چلاتی ہے مرے پیکر پہ باد آتشیں
میں اک گدا
شادابیوں کے چند ٹکڑوں چند سکوں کے لئے
دامن پسارے روح کا
لیٹا ہوں فرش خاک پر کب سے
مجھے خود بھی نہیں کوئی پتہ
نخلوں کی ٹھنڈی چھاؤں کا پیاسا ہوں میں
اپنے وجود خشک کا ہوں نوحہ خواں
لیکن مری پلکوں پہ آنسو تک نہیں
اے بادلو بچ بچ کے جاتے بادلو
پانی نہ دو آنسو تو دو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.