Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سورج کی بیماری

سلیم احمد

سورج کی بیماری

سلیم احمد

MORE BYسلیم احمد

    تو آؤ چلیں اب گھر چلتے ہیں

    دن کی تھکن اب شام ہوئی ہے

    سورج کو اپنے گہوارے میں سو جانے دو

    وہ بہت تھکا ہوا ہے

    سورج کی بیماری نے ہم سب کو تھکا دیا ہے

    کیا جانے کل کیا ہوگا

    کل تو اندیشے کو کہتے ہیں

    دیکھو ہم کتنے اندیشوں سے گزرے ہیں اور زندہ ہیں

    اس نے کہا تھا زندہ رہو

    اٹھارہ برس

    اٹھارہ برس جو نیند کی سانسیں بن کر گزر گئے

    اور اب جلتی آنکھوں کی بیداری وہ حاصل ہے

    جو لا حاصل ہے

    میں اپنی ساری نیندیں بھول گیا ہوں

    ہم سب اپنے خوابوں کا سودا کر کے جینا بھول چکے ہیں

    اس نے کہا تھا زندہ رہو

    جیسے زندہ رہنا میرے بس میں ہے

    وہ سچی تھی لیکن میں نے اس کو جھوٹا سمجھا تھا

    ٹھہرو مجھ کو دروازہ کھولنے دو

    گھر کی دیواروں پر ویرانی ہے

    میں آج تمہارے ساتھ سحر تک جاگوں گا

    دونوں کھا کر گپیں ہانکے گی

    میری میز پہ

    فاقہ کش امیدیں

    وہ روکھی سوکھی کھاتی ہیں

    جو مایوسی سے بچ جاتی ہیں

    میرے بستر پر بے خوابی کروٹیں لیتی ہے

    اس نے کہا تھا زندہ رہو

    کیا زندہ رہنا میرے بس میں ہے

    میں تو سانسیں گن گن کر

    اپنی گم گشتہ امیدوں کو

    نوٹ بکوں میں لکھتا ہوں

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے