تمہیں بھی وہ دن ہے یاد جس دن
گئے تھے ہم تم
محبتوں کی حسین و پر لطف وادیوں میں
برائے تفریح
حسین رستوں پہ چلتے چلتے
اک ایسی منزل بھی آ گئی تھی
نہیں تھا ہم کو گمان جس کا
سراغ جس کا
عجیب بستی تھی وہ بھی جاناں
وہ جس میں انسان ہی کے جیسے تھے لوگ سارے
مگر وہ انساں نہیں تھے شاید
وہ کالے کالے عجیب چہرے
ہماری جانب ہی دیکھتے تھے
نحیف و لاغر تھے جسم لیکن
عجیب آنکھوں میں اک چمک تھی
جو پوچھتی تھی
ہماری خاطر نہ پھل نہ میوے
نہ کھیتیوں میں اناج کوئی
ہماری تہذیب نے تمدن معاشرہ نہ رواج کوئی
یہ سب تو حق نے تمہیں دیا ہے
مگر تمہیں ہے نہ قدر ان کی
نہ ان کی عظمت کا کچھ پتہ ہے
یہ سن کے تم کچھ سہم گئی تھیں
تمہارا چہرہ ڈرا ہوا تھا تمہاری آنکھیں پھٹی ہوئی تھی
وہیں پہ تم نے کہا تھا مجھ سے
کیا تھا سب کو ہی رزق دینے کا حق نے وعدہ
کدھر ہے آخر
دبی زباں سے یہی تو میں نے کہا تھا تم سے
چلو کہ اب ہم چلیں یہاں سے
یہ سن کے ان میں سے ایک بچہ ہماری جانب لپک پڑا تھا
وہ کالا کالا عجیب بچہ
نحیف و لاغر غریب بچہ
میں سوچتا ہوں
جو رزق دینے کا وعدہ رب نے کیا تھا سب سے
وہ رزق اس کا ہماری جیبوں میں تو نہیں تھا
وہ جس کو پانے کی جستجو میں
وہ کالا کالا عجیب بچہ
مرے تعاقب میں چل رہا تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.