تابوت میں بند حواس
مرے ساتھ سانسوں کی صورت
وہ تاریخ کے سارے اوراق میں جاگتا ہے
کثافت زدہ ناخنوں کی سرنجوں میں بل کھاتے بچھو بھرے
مرے پھیپھڑوں کی توانائیوں میں
مصائب سے سمجھوتہ کرنے
حقیقت کہ پتلیوں کا تماشا سمجھنے کا سرطان داخل کرے
مجھے زندہ رہنے کے ایسے قرینے سکھاتا ہے
جن کے سرابوں میں اپنی حفاظت کی زنجیر پہنے
مرے پاؤں رقصاں رہے
کشت در کشت بحراں رہے
ٹھوکروں میں گلستاں رہے
بے نوا کشتیوں پہ بپھرتے سمندر میں
چکلوں کے نیلام خانوں میں
بد بخت مجنوں پہ بھاری صداقت کے صحرا میں
آتش فشاں نخل ہائے تمنا تلے
گول میزوں پہ ٹوٹے ہوئے آئنوں میں
کہ سندر بتوں کی شفق شاموں میں
ہر سو
ہواؤں کی مانند موجود آفت
مری انگلیاں
آگ اور خون کی ریشمی چھتریاں کھولتی ہیں
مقابر کی بے گوش تاریکیوں میں
مہالک کی پگلی ہواؤں میں
کیفوں میں گھٹیا تمباکو کی مانند سلگے ہجوموں میں
محکوم پگڈنڈیوں اور محصور سڑکوں پہ کچلے سروں کے تعفن میں
ویراں دفاتر کی بوسیدہ میزوں پہ آراستہ
سرخ جونکوں کی دہشت میں
سبز گولے اگلتے
سیہ آہنی اژدہوں کے ہزیمت زدہ شور میں
منہمک جبر کے
اپنے ہاتھوں میں فولادی درے لیے
محافظ مرا جاگتا ہے
خود اپنے پپوٹوں میں خاشاک ہوتے
تدبر کے غرے لیے
محافظ مرا جاگتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.