طالب علم
دلچسپ معلومات
یہ نظم انگلینڈ کے ایک مشہور پارک میں اس مقام پر بیٹھ کر لکھی گئی ہے جہاں انگریز شاعر کیٹس(KEATS) اپنی طبع آزمائی کیا کرتے تھے، اس نظم میں شاعر نے ہندوپاکستان سے آنے والے طلبا کے اوپر ناقدانہ نظر ڈالی ہے۔
ہم نشیں پوچھ نہ لندن میں مشاغل میرے
گویا حالات نہیں ذکر کے قابل میرے
گھر سے نکلا تھا پڑھائی کی تمنا لے کر
دل میں مچلے ہوئے ارمانوں کی دنیا لے کر
بار کرنے کا بہت جلد ارادہ کر کے
اپنے ماں باپ سے دو سال کا وعدہ کر کے
داخلہ ملنے میں لیکن جو ذرا دیر ہوئی
گویا یہ کہیے کہ تقدیر الٹ پھیر ہوئی
بور ہوتا تھا صبح و شام اکیلا گھر میں
درد رہتا تھا خیالات سے میرے سر میں
دل بہت جب غم تنہائی سے گھبراتا تھا
تو ذرا سیر گلستاں کو نکل جاتا تھا
ایک دن یوں ہی جو گلگشت چمن کو نکلا
درد سے چور مداوائے محن کو نکلا
دیکھتا کیا ہوں کہ ایک بنچ پہ چشمے کے قریں
محو نظارۂ فطرت ہے کوئی زہرہ جبیں
اس کے نزدیک میں چپکے سے وہیں بیٹھ گیا
بت شکن جیسے کوئی بت کے قریں بیٹھ گیا
بات موسم سے جو نکلی تو محبت پہ گئی
لذت وصل سے بڑھ کر غم فرقت پہ گئی
خرچ کرنے کے لیے گھر سے رقم آتی تھی
فارن ایکسچینج کے پرمٹ پہ گو کم آتی تھی
ہم پکیڈلی پہ ہر اک شام ملا کرتے تھے
بیچ بازار سر عام ملا کرتے تھے
مغربی رقص مجھے گو کہ نہیں آتا تھا
اس نے اک دن میں سکھا ڈالا مگر چا چا چا
روز کمرے میں سلو والٹز کیا کرتا تھا
میں مئے حسن کو چکھ چکھ کے پیا کرتا تھا
وہ گئی اور ملی پھر وہ گئی اور ملی
بعض اوقات بہت جلد و فی الفور ملی
اب یہ عالم ہے کہ بس خون جگر پیتا ہوں
زندگی موت سے بد تر ہے مگر جیتا ہوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.