برس بھر کی خوشی کے ہم نے کچھ نقشے بنائے تھے
بھرے تھے ان میں کیسے کیسے دلکش رنگ
ابھی وہ رنگ سوکھے بھی نہ تھے بارش نے آ گھیرا
وہ نقشے ہو گئے بد رنگ
کہاں سے یک بہ یک برسے یہ پتھر
کہ خوابوں کی ہر اک کھڑکی کے شیشے چور کر ڈالے
کہاں سے تیزی و تندی بھری یہ شعلگی آئی
کہ جس نے آرزو و شوق کی زنجیر پگھلائی
ابھی تو آرزوئے وصل نے دونوں دلوں میں گھر بسایا تھا
ابھی اس ہجر کے ڈر نے اسے بے دخل کر ڈالا
ابھی آزادئی جسم و دل و جاں کا ترانہ ہم نے چھیڑا تھا
ابھی کس نے تمہارے دل پہ پھر پھونکا وہی منتر
کہ تم انساں نہیں ہو اک سماجی جانور ہو تم
تمہیں رسموں کا قانونوں کا بھاری بوجھ ڈھونا ہے
نمائش کے کسی رشتے کی خاطر ہنسنا رونا ہے
نہ انساں ہو نہ حیواں ہو سماجی جانور ہو تم
سماجی جانور ہو تم
- کتاب : shab-khoon-shumara-number-16 (Pg. 22)
- اشاعت : 1967
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.