تعمیری تخریب
صبح کے رنگیں لبوں پر ہے تبسم کی جھلک
گل متاع زر نچھاور کرتے ہیں کلیاں مہک
لیتی ہے انگڑائیاں غنچوں کے پہلو میں حیات
کروٹوں پر کروٹیں لیتی ہے روح کائنات
نرم و نازک تابشوں سے ضو فگن ہے آفتاب
آسماں کا مطلع رنگیں ہے محروم سحاب
بے تکلف ہیں نظر کے سامنے دیوار و در
پنجۂ خورشید سے ٹکڑے ہے دامان سحر
اپنی مجبوری پہ اہل باغ نے سر دھن لیے
مہر نے کرنوں کی نکچوٹی سے موتی چن لیے
یہ سماں ہے میں ہوں اور لاہور کا لارنس باغ
گشت میں ہیں مغربی تہذیب کے چشم و چراغ
پیکر شرم و حیا شرم و حیا سے دور ہے
سینۂ اخلاق میں رستا ہوا ناسور ہے
ہے زمیں پر اس طرح قامت کے سایہ کا نشاں
آسماں پر جس طرح ہو پارۂ ابر رواں
سایہ میں یوں دست و پا کے مضطرب تھی روشنی
آئنہ بازی میں ہو مصروف جیسے تیرگی
جمپروں کی ایسی ہے کچھ نیم عریاں سی تراش
ناخن تخریب کی ہے قلب فطرت پر خراش
چل رہی ہیں شوخیوں کی رو میں اٹھلاتی ہوئی
ہر قدم پر بے زری کی لاش ٹھکراتی ہوئی
سادگی رخ پر کہاں ذوق نظر کی بھول ہے
یہ وہ تیور ہے کہ ہر انداز میں مقبول ہے
ظاہری صورت دلی جذبات کی تصویر ہے
بہکی بہکی سی نظر بے باک سی تقریر ہے
یہ مرقع ہے اگر نخشبؔ نئی تہذیب کا
رنگ آتا ہے نظر تعمیر میں تخریب کا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.