تاریخ ایک خاموش زمانہ
دلچسپ معلومات
انتظار حسین کے نام
یہ ساٹھ صدی کا قصہ ہے
یہ ساٹھ برس کی بات نہیں
تاریخ نے جب آنکھیں کھولیں
سب پانی تھا
پھر پانی پر تصویر بنی
تصویر زمیں پر پھیل گئی
اور اس پر بارش ٹوٹ پڑی
اک بیج کہیں پر
ساٹھ صدی کی آہٹ سے بیدار ہوا
جنگل بن کر پھیل گیا
وہیں کہیں پر میں بھی تھا
تم بھی تھیں
تاریخ نے دستک دی تھی
تاریخ اتری تھی دھرتی پر
وہ رات تھی پورن ماشی کی
پھر دھرتی ہی تاریخ بنی
تاریخ کوئی بندر تو نہیں
تاریخ کوئی چہرہ تو نہیں
تاریخ تو ایک سمندر ہے
جو پورن ماشی کی راتوں میں
پاگل ہو کر پھیلتا ہے
اور سب کو بہا لے جاتا ہے
تاریخ کوئی خاموش زمانہ ہوتا ہے
جو صدیوں تک موسم کی گود میں سوتا ہے
پھر کروٹ لے کر جاگتا ہے
ایسا مجھ کو
گوتمؔ بدھ نے گیان سمے سمجھایا تھا
اور یہ تو مجھ سے آخری آدمی نے پوچھا تھا
ارے میاں کس کھونٹ چلے ہو
ٹھہرو
یہ ساٹھ صدی کا قصہ ہے
کچھ اور نہیں ہے
اور میرے اندر تو ان صدیوں کی وہ گونج بسی ہے
جو اگلی کتنی صدیوں تک
پورن ماشی کی راتوں میں
آواز بنے گی
یہ ساٹھ صدی کا قصہ ہے
کچھ اور نہیں ہے
میرے اندر ساٹھ صدی کی گونج بسی ہے
میں اور تم اس گونج میں گیان کنارے
آ کر بیٹھ گئے تھے
تاریخ نے جب اس دھرتی پر بسرام کیا
جب قصہ گو کی لوری میں ہم سوتے تھے
اور چڑیوں کی چہکار میں آنکھیں کھولتے تھے
موسم کے مزاج میں رچی ہوئی باتوں میں
امرت گھولتے تھے
یہیں کہیں پر ہم تم
میرؔ اور میراؔ کے دکھ دل میں البم کرتے تھے
وہ دکھ تندور کی روٹی میں پک جاتے تھے
میری اور تمہاری ماں
وہ روٹی اپنے دل کے تندور سے لاتی تھی
پھر بھوک ہماری پہلے سے بڑھ جاتی تھی
میں اور تم تاریخ کے بیج سے پھوٹیں گے
اور گوتمؔ بدھ کے جنگل جیسی عمر میں ڈھل جائیں گے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.