کوئی شیشہ چٹختا ہے
کسی بلور کی تڑخن مرے کانوں تک آتی ہے
ستون استخواں جس پر مرا بام شکستہ ہے یکایک ڈول جاتا ہے
مری گردن سے کچھ نیچے جہاں یہ ریڑھ کی چوب ستادہ کپکپی میں ہے
وہیں وسواس کے اور خوف کے اور یاس کے جنات وحشت راگ میں اپنا قدیمی گیت گاتے ہیں
تناؤ اس طرح جیسے طناب جان کھنچتی ہو
دباؤ اس طرح کا ہے میں جیسے قلزم تاریک کی گہرائیوں میں ہوں
کہ سب پر ضوفشاں سورج جہاں سایہ نہیں کرتا
سو رنگ و روشنی کے اور حرارت کے سندیسے بھی نہیں آتے
لہو جوں بحر آشفتہ سر افتاں کے ساحل سے دمادم سر پٹختا ہے
کوئی شیشہ چٹختا ہے
کسی بلور کی تڑخن مرے کانوں تک آتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.