نابود کے کامل سناٹے میں
ذہن آفاقی
شور خیالوں کا اپنے سنتا ہے
اعماق کی تاریکی سے ابھر کر
نور کا ایک اعظم ذرہ
شق ہو کے عدم کے سناٹے کو توڑتا ہے
پیٹھوں پہ ہوائے شمسی مارتی ہے درے۔۔۔
دوری حرکت میں آتے ہیں ساکت کرے
افکار کا ورطہ بین النجم خلاؤں میں
آواز مہیب سے گھومتا ہے
سورج کے درخشاں باطن میں
تاریکی کا پر ہول ہیولیٰ کودتا ہے
شب کی اقلیم کے ہیکل پر
کالا بادل اپنا بجلی کا سہ شناخہ لہراتا ہے
خود سے مبارز اندیشہ
سنگیں کہسار میں ڈھلتا ہے
جس کی مخروطی چوٹی سے
پاتال کی گہرائی کا خبط اچھلتا ہے
فولادی پانی موجوں کی تلواروں سے
پتھر کہ چٹانیں کاٹتا ہے
آشوب وفور قدرت کا
بحر ذخار کی تہ میں پلتا ہے
طلبیدہ تولید پہ ساحل سے سرزن
مخلوق کثیر الاعضا کا شیون
تشکیل میں ہے عامل قوت کا منصوبہ۔۔۔
کہرے سے ظاہر ہوتا ہے اک کشتی کا خاکہ
مستول کے بل خاموشی سے جو
طوفاں واصل ہوتا ہے
مطلوب، نہاں خانے میں اپنے روح انسانی
دہشت کی گود میں بالیدہ ہوتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.