یہ تمنا کا لاوا پگھل کر رہے گا
وہ جو صدیوں سے میرے دل مضطرب میں دبا تھا
وہ آنکھوں کے رستے بہے گا
کہ بہنا ازل کو ابد سے ملاتا ہے
پر کوئی ملتا نہیں
کیا بچھڑنے کے امکان کو
میری تغاروں میں بونے کا مقصد یہی تھا
کہ میں تجھ سے دوری پہ
قریہ بہ قریہ بچھڑنے کا نوحہ کہوں
کیا کہوں کہ تو خاموشیوں کو بھی
سانسوں کے تاروں پہ بجتی ہوئی
دھن میں سنتا ہے
کیسا معمہ ہے جو حل نہ ہونے کا سامان
میرے خیالوں کی
الماریوں میں سجاتا چلا جا رہا ہے
مجھ کو قیدی کرو
اور میری تلاطم میں بہتے سمندر کو
آواز دو
تاکہ میں تیری وسعت کا اندازہ کرتا چلوں
آنکھ کی پتلیوں میں
ہمارے بچھڑنے پہ تالی بجاتے ہوئے
سب تماشائیوں کو بھی قیدی کرو
تاکہ وہ بھی تو جانیں
اس ان دیکھی قوت کا دکھ
جو ہمیں ایک دوجے کو
دوری پہ مجبور کرتی ہے
پر وہ دکھائی نہیں دے رہی
کیا دکھاوا ضروری ہے
اس انبساط جہاں میں
نہیں ہے اگر تو تصدق شعاری پہ مامور
ہم کو بتائیں
زمینی کہاوت پہ خندہ زنی کرنے والے
بتائیں ہمیں
وہ جو موجود ہے پر دکھائی نہیں دے رہا ہے
کہاں ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.