تلخ و ترش
کیوں مری تلخ نوائی سے خفا ہوتے ہو
زہر ہی مجھ کو ملا زہر پیا ہے میں نے
کوئی اس دشت جنوں میں مری وحشت دیکھے
اپنے ہی چاک گریباں کو سیا ہے میں نے
دیر و کعبہ میں جلائے مری وحشت نے چراغ
میری محراب تمنا میں اندھیرا ہی رہا
رخ تاریخ پہ ہے میرے لہو کا غازہ
پھر بھی حالات کی آنکھوں میں کھٹکتا ہی رہا
میں نے کھینچی ہے یہ مے میں نے ہی ڈھالے ہیں یہ جام
پر ازل سے جو میں پیاسا تھا تو پیاسا ہی رہا
یہ حسیں اطلس و کم خواب بنے ہیں میں نے
میرے حصہ میں مگر دور کا جلوہ ہی رہا
مجھ پہ اب تک نہ پڑی میرے مسیحا کی نظر
میرے خوابوں کی یہ بے چین زلیخائیں ہیں
جن کو تعبیر کا وہ یوسف کنعاں نہ ملا
میں نے ہر لہجہ میں لوگوں سے کہی بات مگر
جو مری بات سمجھتا وہ سخنداں نہ ملا
کفر و اسلام کی خلوت میں بھی جلوت میں بھی
کوئی کافر نہ ملا کوئی مسلماں نہ ملا
میرے ماتھے کا عرق ڈھلتا ہے ٹکسالوں میں
پر مری جیب مرے ہاتھ سے شرمائی ہے
کبھی میں بڑھ کے تھپک دیتا ہوں رخسار حیات
زندگی بیٹھ کے مجھ کو کبھی سمجھاتی ہے
رات ڈھلتی ہے تو سناٹے کی پگڈنڈی پر
اپنے خوابوں کے تصور سے حیا آتی ہے
کیوں مری تلخ نوائی سے خفا ہوتے ہو
میری آواز کو یہ زہر دیا ہے کس نے
- کتاب : ajnabi-shahr-ajnabi-raaste(rekhta website) (Pg. 54)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.