تنہائی
اس صف میں بھی سب دشمن ہیں
اس صف میں بھی سب دشمن ہیں
جو آنکھوں میں آنکھیں ڈالے
اور دل میں نفرت کو پالے
بارود کے ڈھیر پہ بیٹھے ہیں
بس اک ساعت کی دوری پر
اس انساں کی مجبوری پر
کوئی رونے والا بھی تو نہیں
کوئی ہنسنے والا بھی تو نہیں
اس ساعت خوں آشام سے تھی
وہ ساری رونق منظر کی
اس ساعت دل آزار سے ہے
اک زرد اداس سی خاموشی
اس منظر سے اس منظر تک
اک منظر تھا اب وہ بھی نہیں
اک کٹنے والی گردن تھی
اک خنجر تھا اب وہ بھی نہیں
اب وہ بھی نہیں جو دیکھتے ہوں
یہ جیت ہوئی یا ہار ہوئی
اب وہ بھی نہیں جو کہتے ہوں
یہ زیست ہمیں آزار ہوئی
اب وہ بھی نہیں جو لکھتے ہوں
احوال جسے تاریخ کہیں
اب یہ بھی نہیں کہ یہ لاشے
مٹی میں ملیں گلزار بنیں
اب انساں کھیت نہ حیواں ہیں
گھر مدرسے دفتر اور نہ ملیں
انگشت کی اک جنبش سے کہیں
میزائل داغا جا بھی چکا
اک جوہری رقص کے تھمنے تک
جو دور حیات تھا جا بھی چکا
اس زیست کے بندی خانے سے
ہم مثل اجل آزاد ہوئے
یہ کیسے ملک بسائے تھے
اک لمحے میں برباد ہوئے
ہے آخری منظر تاراجی
ہوں جس کا ایک حوالہ میں
یہ منظر کیسا منظر ہے
جسے تنہا دیکھنے والا میں
اب اس صف میں بھی کوئی نہیں
اب اس صف میں بھی کوئی نہیں
میں تنہا بیٹھا سوچتا ہوں
کچھ جینے کا امکان تو ہو
آ بیٹھے پاس جو دشمن کے
دشمن ہی سہی انسان تو ہو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.