تنہائی کا سفر نامہ
شام ہوتے ہی گھر مجھ سے چھوٹا پڑ جاتا ہے
میں رستوں کی بد دعا پر نکلا ہوں
جہاں آنکھوں کو چہرے کمانے سے فرصت نہیں
لگتا ہے تنہائی مجھ سے اوب گئی ہے
سانسیں میلی ہو رہی تھیں
مٹی نے مجھے پھول بنا دیا
خوشبو ہوا کی دوست ہو جائے
تو بے رنگے لوگ رنگ رنگ کی باتیں
کرتے ہی ہیں
(وہ خواہ کتنے بھی چھوٹے ہو جائیں
اچھا موسم ان پر کبھی پورا نہیں آتا)
بد زبانوں کو معلوم نہیں
عریانی صرف آنکھوں پر جچتی ہے
میں زمین پر گرا ہوا چاند ہوں
قدموں سے پہلے دیوار مجھے پھلانگ رہی ہے
منڈیر پر دھرا چراغ مجھ سے زیادہ روشن ہے!
میں بھی تو میں ہوں
ایک گناہ کے عوض اپنا ساری نیکیاں
خرچ کر بیٹھتا ہوں
خاموشی کے خالی بدن میں
کوئی دھن مجھے گنگناتی رہتی ہے
اداسی اور کہاں رہے
کاش خدا مجھے دیکھ رہا ہو!
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.