تنہائی تمہیں یاد کرتی ہے
ادب سے جھک کے عقیدت بھری نگاہوں سے
فلک نے تم کو سر شاخسار دیکھا ہے
مہ تمام نے عکس رخ تجلی میں
قدم قدم پہ تمہیں جلوہ بار دیکھا ہے
خود اپنے سایہ سے ڈر کر بدن چرائے ہوئے
تمہیں ستاروں نے دیوانہ وار دیکھا ہے
شفق نے تم کو اکیلے میں کسمسائے ہوئے
ہزار بار نہیں لاکھ بار دیکھا ہے
خود اپنے حسن کی تنویر میں نہائے ہوئے
سحر نے تم کو سراپا بہار دیکھا ہے
تمہیں چمن میں ٹہلتے ہوئے اداؤں سے
گلوں نے دیکھا ہے اور بار بار دیکھا ہے
نسیم صبح کی اٹھکھیلیوں نے روز و شب
شرارتوں سے تمہیں ہمکنار دیکھا ہے
مگر قریب سے اس روز تم کو بسملؔ نے
بس ایک بار فقط ایک بار دیکھا ہے
سمجھ لو پھر مجھے تم التفات کے قابل
بنا دو میری خوشی کو حیات کے قابل
تمہارے رس بھرے ہونٹوں کی مسکراہٹ کو
شب دراز کی تنہائی یاد کرتی ہے
حیا کے سایہ میں گفتار کی حلاوت کو
جواں امنگوں کی رعنائی یاد کرتی ہے
نگاہ ناز سے آئی تھی جس میں رنگینی
تمہیں وہ انجمن آرائی یاد کرتی ہے
نظر کی گود میں پھر ایک بار آ جاؤ
دل گرفتہ کی انگڑائی یاد کرتی ہے
تمہیں سنورتے ہوئے آئنے میں ہنستے ہوئے
مرے خیال کی گہرائی یاد کرتی ہے
میں جانتا ہوں جوانی کی لغزشیں کیا ہیں
شب وصال کی دل کش گزارشیں کیا ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.