مزدور
کتنی تاریک ہے مزدور کی دنیا اب تک
اس کو افسوس کبھی شاد نہ دیکھا اب تک
وہی محنت وہی دکھ اور وہی غم کی شدت
وہی نکہت وہی افلاس وہی ہے غربت
ٹوٹے گھر میں وہی پھوٹا سا دیا
دن نہیں رات نہیں صبح نہیں شام نہیں
اسے بسرام نہیں سکھ نہیں آرام نہیں
بال بچوں کی ہے کچھ فکر تو کچھ اپنا خیال
اسی الجھن میں شب و روز وہ رہتا ہے نڈھال
یوں جیا بھی تو بھلا کیا وہ جیا
دھنوان
اور دھنوان کا اب تک ہے وہی سر اونچا
اس کے دروازے کی دہلیز کا پتھر اونچا
وہی بنگلے وہی کوٹھے ہیں وہی رنگ محل
وہی گدے وہی مسند وہی فرش مخمل
قمقموں سے ہے محل بقۂ نور
کس رعونت سے وہ لیتا ہے غریبوں کا سلام
ایسا سکمار ہے کچھ اتنا ہے نازک اندام
ہاتھ اٹھانا تو کجا جنبش ابرو بھی نہیں
پاس اخلاق و شرافت کا سر مو بھی نہیں
کتنا فرعون ہے کیسا مغرور
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.