تقاضا
پھر رات کی تاریک ادائیں ہیں مسلط
پھر صبح کے ہاتھوں سے حنا چھوٹ رہی ہے
جو ہار تیرے واسطے گوندھا تھا کسی نے
اس ہار کی اک ایک لڑی ٹوٹ رہی ہے
جو ساز کبھی واقف اسرار جنوں تھا
اس ساز کی رگ رگ سے لہو پھوٹ رہا ہے
کیا ہوش تجھے ساقیٔ میخانۂ دنیا
وہ کون سا ساغر ہے جو اب ٹوٹ رہا ہے
تقدیر کو روتے ہیں سیہ بخت ستارے
آفاق پہ ظلمات نے پھینکی ہیں کمندیں
کھلتا ہی نہیں اب در جاناں یہ سنا ہے
دیوانے کہاں جائیں کہاں رات گزاریں
خوں ریز حقائق کی گھنی چھاؤں میں اب تک
دوشیزۂ افکار کی زلفیں ہیں پریشاں
اب تک ہیں وہی مقتل و زنجیر و سلاسل
اب تک کف قاتل میں وہی موت کے ساماں
اب تک نہ بجھے دست تغیر کی ادا سے
تصویر گلستاں کو جھلستے ہوئے شعلے
اب تک نہ ہٹے اپنے سیہ کار ستم سے
تفریق کے فرزند ہوس ناک لٹیرے
اس عالم ظلمات کی پر ہول فضا میں
ہم اپنی محبت کا لہو بیچ رہے ہیں
ہم جن کو بناتے رہے گلشن کا نگہباں
اب تک وہ رگ گل سے لہو کھینچ رہے ہیں
پھر عالم ظلمات میں روتی ہے زلیخا
کیا جانئے کس بھیس میں خورشید سحر ہے
پھر اپنے مقدر پہ وہی رات کے پہرے
پھر جانب مقتل وہی قاتل کی نظر ہے
پھر ہم سے تقاضا ہے تری شوخ نظر کا
تاریکئ حالات کی بنیاد ہلا دیں
جن سے نہ کبھی صبح کی کرنوں کا گزر ہو
ان تیر و تاریک گھروندوں کو گرا دیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.