ترک وعدہ کہ ترک خواب تھا وہ
ترک وعدہ کہ ترک خواب تھا وہ
کام سب ہو چکا جو کرنا تھا
بھر چکا جام شرط وصل جسے
صبح تک، آنسوؤں سے بھرنا تھا
وہ سخن اس کے مدعا میں نہیں
مجھ کو جس بات سے مکرنا تھا
کوئی تقسیم کار مہر و نجوم
یا حساب شب نزول کوئی
دشت لاحاصلی کی محدودات
شہر محرم کا عرض و طول کوئی
کچھ نہیں درمیاں جزا نہ سزا
سنگ، دشنام، داغ، پھول کوئی
اس طرف اب رخ تعلق ہے
جہاں سود و زیان ذات نہیں
ڈر نہیں نیند ٹوٹ جانے کا
پاس وعدہ کی احتیاط نہیں
مجھ کو جس بات سے مکرنا تھا
اس کے دعوے میں اب وہ بات نہیں
بھر چکا جام شرط وصل جسے
صبح تک، آنسوؤں سے بھرنا تھا
ترک وعدہ کہ ترک خواب تھا وہ
کام سب ہو چکا جو کرنا تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.