Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

طرز نو کی شاعری

سید محمد جعفری

طرز نو کی شاعری

سید محمد جعفری

MORE BYسید محمد جعفری

    توسن طبع رسا کے پاؤں میں کچھ لنگ ہے

    لیکن اس صورت میں چپ رہنا بھی وجہ ننگ ہے

    شعر کا سامان ہے کم یاب دور جنگ ہے

    شاعری بھی فرض ہے اور قافیہ بھی تنگ ہے

    قافیے اور وزن کی بندش سے ہو کر تلخ کام

    اے سمند طبع تجھ کو کر رہا ہوں بے لگام

    نثر نظم آلود ہے یہ طرز نو کی شاعری

    ماش کی کھچڑی ہے جو پوری طرح پکی نہ ہو

    یا وہ حاجی ہے کراچی تک جو جا کر لوٹ آئے

    غالباً آدھا ہے تیتر اور آدھا ہے بٹیر

    کر دیا صیاد نے پر قینچ اڑ سکتا نہیں

    میں انہی شعروں سے پیدا کر رہا ہوں انقلاب

    حافظؔ و خیامؔ سے کہہ دو کہ محشر ہو گیا

    تندیٔ صہبا سے چکناچور ساغر ہو گیا

    شاعری کی فکر ہے سرکس کی بیلی ڈانسر

    توڑ کر بندش کو تقریباً برہنہ ہو گئی

    خرمن شعر و ادب پر بجلیاں گرنے لگیں

    ''آگ اس گھر کو لگی ایسی کی جو تھا جل گیا''

    اس کو کہتے ہیں کہ یہ ہے بلینک ورس

    ''ورس'' ہو جاتا ہے جب بھی ذہن ہو بالکل بلینک

    طرز نو کی شاعری بھی صور اسرافیل ہے

    شاعری ہابیل ہے اور طرز نو قابیل ہے

    اس کے اندر زندگی کی قدر کرتے ہو تلاش

    اور لیے پھرتا ہے بھائی دوسرے بھائی کی لاش

    طرز نو کی شاعری ہو جائے جب بے حد بلیغ

    لوگ کہتے ہیں کہ پیدا ہو گیا ادب لطیف

    طرز نو کی شاعری کے دیکھیے موضوع بھی

    ''حریت'' ''نسوانیت'' ''احساس'' ''مفلس کا شباب''

    ''چاندنی راتیں'' پپیہا، تو کہاں'' ''سرمایہ دار''

    ''بورژوا قدریں'' ''مہاجن'' ''زندگی کے موڑ پر''

    ''مورچہ مخمل میں دیکھا آدمی بادام میں''

    ''ٹوٹی دریا کی کلائی زلف الجھی بام میں''

    طرز نو کی شاعری میں مد و جزر بحر شعر

    اف غضب

    ایک مصرعہ فیل بے زنجیر کی زندہ مثال

    دوسرا اشتر کی دم

    دریا میں شیر خاک اڑاتا تھا ناؤ پر

    بسمل دو زانو بیٹھا تھا پشت بلاؤ پر

    نظم لوٹ آئی ہے پھر اپنی پرانی بحر میں

    ہے عجب تاثیر پنہاں طرز نو کے سحر میں

    طرز نو کی شاعری کی کوئی کل سیدھی نہیں

    شہر بھر میں اونٹ بے چارہ عبث بد نام ہے

    طرز نو کی شاعری کو اونٹ سے دے کر مثال

    چاہتا ہوں اونٹ سے جا کر معافی مانگ لوں

    ہاتھ لیکن اس کی گردن تک پہنچ سکتے نہیں

    گرچہ بے چارہ ہے لیکن ہے بڑا گردن دراز

    آہ اونٹ!

    مأخذ :
    • کتاب : Shokhi-e-Tahrir (Pg. 80)
    • Author : Sayed Mohammad Jafri
    • مطبع : Malik Norani, Maktaba Daniyal Viktoria Chaimber, 20, Abdullah Haroon Road, Sadar Krachi (1985)
    • اشاعت : 1985

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے