سبھی کو یوں تو دنیا میں
ہزاروں لوگ ملتے ہے
مگر اس بھیڑ میں مجھ کو
نظر تم ہی نہیں آتے
تمہیں میں ڈھونڈتی پھرتی ہوں
صحراؤں میں گلشن میں
چمن میں اور بیاباں میں
جہاں تک روشنی سورج کی پہونچی ہے
وہاں تک بھی
جہاں تک فکر کی پرواز پہنچی ہے
وہاں تک بھی
تمہیں ڈھونڈا
ندی کے پانیوں کی ان رواں لہروں میں
تم ہو کیا
نہ جانے کیوں مجھے اکثر یہی احساس ہوتا ہے
زمیں سے تا فلک نظروں میں اک اک پل
تمہیں ڈھونڈھا
تمہیں ڈھونڈھا تمناؤں کے
ان گستاخ لمحوں میں
سنجویا ہے جنہیں دل کے نہاں کھانوں میں
خود میں نے
مگر افسوس ہوتا ہے
تمہیں پانے کی حسرت میں
میں خود کو ہی گنوا بیٹھی
مگر تم مل نہیں پائے
کبھی تو آ کے دھیرے سے مری ویران آنکھوں میں
کوئی اک دل نشیں سا خواب بن کر ہی سما جاؤ
کبھی تو ہولے ہولے سے مری بے ربط سانسوں میں
نئی خوشبو بنو اور روح میں تحلیل ہو جاؤ
کسی دن یوں اچانک سے
مجھے آ کر یہ سمجھاؤ
یہ کیسا حال کر بیٹھی
یہ چہرہ زرد سا کیوں ہے
یہ چہرہ سے الجھتے گیسوؤں کی زندگی کیسی
اگر بے نور ہیں آنکھیں تو کوئی روشنی کیسی
کبھی میں کھلکھلاتی تھی کسی معصوم بچے سی
ہمیشہ مسکراتی تھی کبھی غنچہ دہن جیسی
جو میری جان تھا کل تک
وہ خود غافل ہوا شاید
کبھی تو کہہ دے وہ آ کر
ترے بن جی نہیں سکتا
اسی امید میں اکثر بکھر کر ٹوٹ جاتی ہوں
نہیں تھا جسم سے مطلب
مجھے تھی روح سے نسبت
نظر آتا نہیں کوئی
کہیں پر بھی ترے جیسا
تصور جب خیالوں میں
تری صورت بناتا ہے
وہ صورت دیکھتی ہوں میں
نہ اس میں رنگ ہے تیرا
نہ تیرے جسم کی خوشبو
تصور تو فقط اک عکس ہے
مبہم خیالوں کا
جو اکثر ٹوٹ جاتا ہے
میں بے بس دیکھتی رہتی ہوں
جھوٹھے آبگینوں کو
جو اکثر پھوٹ جاتے ہیں
فلک سے کہکشاں بن کر
ستارے ٹوٹ جاتے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.