تسخیر فطرت کے بعد
تسخیر فطرت کے بعد
ہوا اے ہوا
میں ترا ایک انگ ایک لہرا تھا
صدیوں ترے ساتھ دشت دامن کوہ صحرا میں
آزاد و سرشار پھرتا رہا ہوں
سمندر کی چھاتی پہ صدیوں ترے ساتھ
بے فکر و بے دست چلتا رہا ہوں
انوکھی زمینوں طلسمی جزیروں کو دریافت کرتا رہا ہوں
مجھے تو نے فطرت کے بعد
صنم خانۂ کائنات آزری کے طلسمات کسے آ کے باہر نکالا
مرے خوف سے کانپتے دل کو
وہموں میں ہوئے سر کو
سجدے سے تو نے اٹھا کر
انہیں آگہی و عمل کی نیا نور بخشا
مجھے خود سے اور خود سے باہر مظاہر سے
صدیوں ہم آہنگ ہونا سکھایا
سمندر کے دکھ کو سمجھنے کی خاطر
ابلتے ہوئے گرم پر شور طوفاں کو ناپا ہے میں نے
بیاباں کی تنہائی کو دور کرنے کی خاطر
میں تپتی ہوئی ریت پر صدیوں پیدل چلا ہوں
بدلتے ہوئے موسموں کا ہر اک راز لینے کو میں نے
بہار و خزاں میں درختوں کے سایوں میں ٹھہرا تو بچوں کی سانسیں گنی ہیں
زمانے کا ہر سرد و گرم آزمانے کو صدیوں ہی تک میں
پہاڑوں کی برفیلی چوٹی سے
اور کوہ آتش فشاں کے دہانے سے گزر کیا ہوں
اور اس پر ابھی جب ناتمامی کا احساس ڈستا رہا
اپنی تکمیل کرنے کی خاطر
بلندی کی پر نور چوکھٹ کو
پستی کے تاریک غاروں کو چوما ہے میں نے
غرض زندگی کے ہر ایک درد سے خود کو انگیز کر کے
ہوا اے ہوا
میں کہ تجھ سے بچھڑنے سے پہلے
تری طرح آزاد و سرشار تھا
اب یہ کس طرح کی منہمک ٹوٹتی زندگی ہے
کہ تو شہر شہر آدمی کی تگ و تاز کی تاب لانے کے قابل نہیں
اور میں شہر شہر ایک پتھر سا رستوں میں بے حس پڑا ہوں
تری سست پیمائی اور اپنی بے چارگی کا گلہ کر رہا ہوں
- کتاب : Dastavez (Pg. 23)
- Author : Aziz Nabeel
- مطبع : Edarah Dastavez (2010)
- اشاعت : 2010
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.