توجیہہ
تو کیا دیکھتا ہوں
فضا نور ہی نور تھی
پہاڑ اپنے اندر سے پھوٹے ہوئے درد
سے جل رہا تھا
پڑوسی سمندر سنہرا ہوا تھا
بشارت ملی تھی
ننوں، کاہنوں کے برہنہ ہجوم
داہنے ہاتھ میں اپنے غم
اور بائیں میں اپنے سوال
اور رانوں میں گھوڑوں کی پیٹھیں پہن کر
نکل آئے تھے
روشنی کی طرف
خامشی سے بڑھے جا رہے تھے
خنک اور حیران آنکھوں سے
ٹکرا کے واپس پلٹتی شعاعوں سے
اندھی چٹانوں کے خم جل اٹھے تھے
تو کیا دیکھتا ہوں
وہ چوٹی کے پاس
پہنچ کر لرزنے لگے تھے
دھماکہ ہوا تھا
عجب ایک سیال ملغوبہ
ان کی طرف بڑھ رہا تھا
اسی تیل میں بھیگ کے
ایک زیتون کا پیڑ
مشعل بنا جل رہا تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.