تضاد
میں سوچتا ہوں
میں ایک انسان ہوں ایک مشت غبار ہوں میں
ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا
کہ ایک آواز سرسرائی فضا کی خاموش وسعتوں میں
پلٹ کے دیکھا
کوئی ہوائی جہاز پرواز کر رہا تھا
جو لمحہ لمحہ بلندیوں کی طرف رواں تھا
میں اس کو تکتا رہا مسلسل
نہ جانے کب تک
نہ جانے اس لمحۂ گریزاں کے تنگ دامن میں کتنی صدیاں سمٹ گئی تھیں
نہ جانے میری نظر میں کتنے نئے افق جگمگائے
کتنے ہی چاند سورج ابھر کے ڈوبے
نہ جانے وہ کون سا جہاں تھا
زمیں کہ پاؤں تلے کوئی فرش زر ہو جیسے
فلک کہ سر پر ردائے آب گہر ہو جیسے
فضا منور
ہوا معطر
نفس نفس میں بسی ہوئی نکہت گل تر
خلاؤں میں مشتری و زہرہ کا رقص جاری
تمام عالم پہ ہلکا ہلکا سرور طاری
نہ جانے میں کس خیال میں گم
کس ابر پارے پہ اڑ رہا تھا
غرور سے سر بلند کر کے ہر اک ستارے کو دیکھتا تھا
کہ ایک دل دوز چیخ گونجی فضا کی خاموش وسعتوں میں
میں چونک اٹھا
پلٹ کے دیکھا
گلی سے اک ہڈیوں کا ڈھانچہ گزر رہا تھا
جو چیخ کر ایک اک سے کہتا تھا ''ایک روٹی
خدا تمہارا بھلا کرے گا''
- کتاب : Nai Nazm ka safar (Pg. 168)
- Author : NCPUL, New Delhi
- مطبع : Khalilur Rahman Azmi (2011)
- اشاعت : 2011
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.