تذبذب
ہو تو سکتا ہے کسی دیو کے جیسے میں بھی
لے اڑوں تجھ کو کہیں دور کی دنیاؤں میں
دل کی دیواروں میں لو تیری مقید کر کے
تشنہ آشاؤں کے قلعے کو منور کر لوں
خواب دیرینہ کی تعبیر بنا کر تجھ کو
اپنی آنکھوں کے کواڑوں میں مقفل کر لوں
ساری دنیا کی نگاہوں سے چھپا کر تجھ کو
لے اڑوں رینگتے بل کھاتے ہوئے رستوں پر
جو پہاڑوں کے بدن کاٹ کے اوپر کی طرف
سبز کائی سے اٹے محلوں پہ جا رکتے ہیں
خود غرض ہو کے تجھے قید میں رکھوں ایسے
ذی نفس کوئی نہ ہو چار چفیرے تیرے
اپنی تنہائی کی وحشت کو مٹانے کے لئے
ڈھونڈ پائے نہ کسی کو تو سوائے میرے
صرف اک میں ہوں اور اک تو ہو رفاقت کے لئے
ماسوا میرے نہ ہو کوئی محبت کے لئے
لیکن اے پھول صفت دیکھ کے صورت تیری
سوچتا ہوں کہ اگر باغ جہاں سے تجھ کو
توڑ بھی لوں گا تو تو کیسے جیے گی آخر
رنگ ہا رنگ مہکتے ہوئے پھولوں سے پرے
دور افتادہ پر اسرار خرابے میں قیام
درد کے پھیلتے سائے میں کہاں ممکن ہے
تجھ تر و تازہ کا خوش رہنا چٹکنا کھلنا
میری ویران سرائے میں کہاں ممکن ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.