تیرے بعد
کوئی مخلص مجھے تجھ سا نہ ملا تیرے بعد
یاد آتی ہے بہت تیری وفا تیرے بعد
ہم ہیں جینے سے اجل ہم سے خفا تیرے بعد
ہم سے دل دل سے ہے آرام جدا تیرے بعد
کوئی جامع نہ رہا منتشر آتے ہیں نظر
علم و فن دانش و دیں صدق و صفا تیرے بعد
دولت فقر امیروں میں نہیں ملتی اب
پھرتے ہیں جھانکتے در در فقرا تیرے بعد
بے سبب تجھ سے وفادار نے منہ موڑ لیا
منہ دکھاتے نہیں اب اہل وفا تیرے بعد
بحث رہتی تھی کہ ہے کون وفا کا پابند
حیف یہ عقدۂ سر بستہ کھلا تیرے بعد
حد کو پہنچی تھی محبت مری تیرے آگے
ہو گئی حد سے یہ کم بخت سوا تیرے بعد
گنج امید و طرب چھین کے روپوش ہوئی
سامنے آئی نہ پھر میرے قضا تیرے بعد
دل کو بد ظن نہ کر اے ہادم لذات کے صید
جان شیریں کا نہیں کچھ بھی مزا تیرے بعد
یہ عیاں ہے کہ اٹھا دہر سے تو پر یہ بتا
ہو گیا بیٹھے بٹھائے مجھے کیا تیرے بعد
محشرستاں تپش شوق سے تھا جو سینہ
مقبرہ حسرت و ارماں کا بنا تیرے بعد
شوق تھا ہنسنے ہنسانے کا ترے آگے مجھے
بھا گئی رونے رلانے کی ادا تیرے بعد
تھا تری ذات پہ موقوف مرا ناز و غرور
خاکساروں میں شمار اب ہے مرا تیرے بعد
میرا ہر فعل ترے فعل کا آئینہ بنا
بھا گیا مجھ کو ہر اک شغل تیرا تیرے بعد
بڑھ گئی یا تو تری رائے کی موزونیت
نور یا میری بصارت کا بڑھا تیرے بعد
پہلے مرغوب تھے دانشور و چالاک اصحاب
بھولے بھالوں پہ لگی ہونے فدا تیرے بعد
نہ رہا غلبۂ سودائے بیان غالب
داغؔ نے پائی دل تفتہ میں جا تیرے بعد
دوست رکھتی تھی ہمیشہ ترے ہر دوست کو میں
ہو گئے اپنے احبا سے سوا تیرے بعد
بے حیائی ہے اگر زاہدہؔ لے شعر کا نام
آہ اے قدر شناس شعرا تیرے بعد
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.