تیرے خطوں کی خوشبو
تیرے خطوں کی خوشبو
ہاتھوں میں بس گئی ہے سانسوں میں رچ رہی ہے
خوابوں کی وسعتوں میں اک دھوم مچ رہی ہے
جذبات کے گلستاں مہکا رہی ہے ہر سو
تیرے خطوں کی خوشبو
تیرے خطوں کی مجھ پر کیا کیا عنایتیں ہیں
بے مدعا کرم ہے بے جا شکایتیں ہیں
اپنے ہی قہقہوں پر برسا رہی ہے آنسو
تیرے خطوں کی خوشبو
تیری زبان بن کر اکثر مجھے سنائے
باتیں بنی بنائی جملے رٹے رٹائے
مجھ پر بھی کر چکی ہے اپنی وفا کا جادو
تیرے خطوں کی خوشبو
سمجھے ہیں کچھ اسی نے آداب چاہتوں کے
سب کے لیے وہی ہیں القاب چاہتوں کے
سب کے لیے برابر پھیلا رہی ہے بازو
تیرے خطوں کی خوشبو
اپنے سوا کسی کو میں جانتا نہیں تھا
سنتا تھا لاکھ باتیں اور مانتا نہیں تھا
اب خود نکال لائی بیگانگی کے پہلو
تیرے خطوں کی خوشبو
کیا جانے کس طرف کو چپکے سے مڑ چکی ہے
گلشن کے پر لگا کر صحرا کو اڑ چلی ہے
روکا ہزار میں نے آئی مگر نہ قابو
تیرے خطوں کی خوشبو
- کتاب : Kalam Qateel Shifai (Pg. 269)
- Author : Qateel Shifai
- مطبع : Farid Book Depot Pvt. Ltd (2011)
- اشاعت : 2011
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.