تھا خواب میں خیال کو تجھ سے معاملہ
آندھیاں ہوتی ہیں کیا، طوفان کہتے ہیں کسے!
پہلے تو مٹی کی اک ہستی بنا، پھر مجھ سے پوچھا
بارشیں ہوتی ہیں کیا، سیلاب کہتے ہیں کسے!
پہلے تو کاغذ کی اک کشتی بنا، پھر مجھ سے پوچھا
پوچھتا کیا ہے بتا! اے خواب، میرے خیال سے
ٹوٹ جاتی ہیں میری نیندیں، ترے سنگار سے
دیکھ کر یہ جذبہ بے اختیاری، مہرباں
سر سے پا تک آتش خاموش ہو جاتا ہوں میں
''میں'' نہیں رہتا ہوں ''میں''
آغوش ہو جاتا ہوں ''میں''
دیکھتا ہوں جھانک کر دل میں، جہاں پردے میں گم
خوب صورت سی تری تصویر کا ناموس تھا
اب وہاں پر وہ نہیں، ناموس بھی کوئی نہیں
ہاں مگر تو ہے وہاں سر تا قدم
فانوس میں
پیرہن اک اک اتارے جا رہی ہے
کیا کہوں!
کیسے کہوں!
ہر راز اٹھ جانے کے بعد
میں تو مشکل ہو گیا آساں ہے تو
آئینے کے سامنے کی بات کیا
ہاں پس آئینہ بھی عریاں ہے تو
جن میں تھے تیرے زرد اور زمرد کے چراغ
جن میں تھے الماس تیرے اور الماسوں کے داغ
جن میں تھا اک حوض تیرا اور اس میں پھول باغ
جو اتارے ہیں بدن سے بے بدن، کیا چوم لوں!
نقش فریادی سے تیرے پیرہن، کیا چوم لوں!
- کتاب : Jalta Hai Badan (Pg. 127)
- Author : Zahid Hasan
- مطبع : Apnaidara, Lahore (2002)
- اشاعت : 2002
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.