کٹ گئے اپنی جوانی کے مہ و سال یوں ہی
روز و شب کوچہ و بازار میں منڈلاتے ہوئے
کبھی ہنس کر کبھی رو کر کبھی خاموشی سے
دل بیتاب کو ہر گام پہ بہلاتے ہوئے
حسن سے ہم کو عقیدت تھی سو ہر حالت میں
گیت گاتے ہی رہے محفل خوباں کے لئے
شاہراہوں پہ بیابانوں میں صحراؤں میں
پھول ہم چنتے رہے ان کے شبستاں کے لئے
رات بھر اشک بہاتے تھے مگر صبح کو ہم
آئنے لاتے رہے زلف پریشاں کے لئے
پھر بھی لوگوں نے وفادار نہ سمجھا ہم کو
بزم خوباں میں کوئی ہم سے مخاطب نہ ہوا
دور ہی دور رہے سارے حسیں نظارے
اجنبی ہی کی طرح ہم کو ہر اک نے دیکھا
کبھی مے خانے میں بیٹھے تو یہ سوچا ہم نے
حسن کے قافلۂ خواب کی منزل ہے شراب
نشہ اب آتا ہے اب اٹھتا ہے چہرے سے نقاب
سینکڑوں بار یوں ہی راستہ دیکھا ہم نے
نشہ آیا نہ کوئی راز کسی نے کھولا
ہم تو اٹھ آئے وہاں سے بھی بہرحال یوں ہی
کٹ گئے اپنی جوانی کے مہ و سال یوں ہی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.