تیرگی
کتنی تاریک ہے شب
ہر طرف کالی بلاؤں کا ہجوم
اہرمن جاگ رہا ہے کب سے
دوڑتے پھرتے ہیں تاریکی میں
رات کے کتنے بھیانک سائے
دل لرز اٹھتا ہے رہ رہ کے مرا
اس اندھیرے میں جو آتی ہے صدا
ہات سے ہاتھ کے ٹکرانے کی
رات تاریک ہے اور تو بھی مرے پاس نہیں
تیرے آنے کی کوئی آس نہیں
دشت تنہائی ہے افلاک کی پہنائی ہے
میرے آوارہ خیالوں کی گھٹا چھائی ہے
زندگی جام سے ٹکراتی ہے مے خانوں میں
چھپ کے بیٹھی ہے مگر آج نہاں خانوں میں
رنگ بھرتی نہیں افسانوں میں
چاند کی سمت ہے پرواز جنوں والوں کی
بات ہی اور ہے دیوانوں کی
ایک ہی جست میں افلاک پہ جا پہنچے ہیں
میں کہاں ہوں کہ اندھیرے کے سوا
اور یہاں کچھ بھی نہیں
دور ہے قافلۂ صبح بہار
آگہی راہ میں ملتے ہوئے کتراتی ہے
رات تاریک ہے اور تو بھی مرے پاس نہیں
تیرے آنے کی کوئی آس نہیں
اس اندھیرے میں مگر خون جگر کی شمعیں
اپنے ویرانے میں روشن کر لوں
مجھ کو تا صبح اسی طور پہ جلنا ہوگا
جام خورشید اٹھانے کے لئے
نور خورشید کو پلکوں میں چھپانے کے لئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.