تجارت
اس میں کیا شک ہے تجارت بادشاہی کاج ہے
غور کر کے دیکھ لو تاجر کے سر پر تاج ہے
ہند کی تاریخ پڑھ کر ہی سبق حاصل کرو
جو تجارت کرنے آئے تھے اب ان کا راج ہے
زندہ رہ سکتا نہیں ہرگز تجارت کے بغیر
ہم نے یہ مانا کہ یورپ مرکز افواج ہے
ہر دکان اپنی جگہ ہے ایک چھوٹی سلطنت
نفع کہتے ہیں جسے دراصل اس کا باج ہے
جز تجارت قوم کی ملکی سیاست کچھ نہیں
لطف آزادی اسی میں ہے یہی سوراج ہے
زندگی کی رفعتوں سے ہے تجارت ہی مراد
ہاں یہی بام ترقی ہے یہی معراج ہے
مرد تاجر کو خدا کی ذات پر ہے اعتماد
مرد چاکر ہر گھڑی اغیار کا محتاج ہے
جب سے ہم غیروں کے آگے جھک گئے مثل کماں
تب سے اپنا دل ستم کے تیر کا آماج ہے
چل رہی ہیں زور سے بیکاریوں کی آندھیاں
نوجواں کا گلستان زندگی تاراج ہے
یہ ضروری کام کل پر ٹالنا اچھا نہیں
بالیقیں ہم کو تجارت کی ضرورت آج ہے
وائے حسرت کیوں تمہاری عقل پر پتھر پڑے
جس کو تم کنکر سمجھتے ہو وہی پکھراج ہے
پھر خریدو بیاہ کا سامان پہلے جان لو
بس تجارت ہی عروس قومیت کا راج ہے
وہ ہمیشہ قدر کرتے ہیں سودیشی مال کی
قوم کا احساس ہے جن کو وطن کی لاج ہے
خوب موتی رولتے ہیں تاجران با صفا
فیضؔ بازار تجارت قلزم مواج ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.