تری ہنسی
فلک کا ایک تقاضا تھا ابن آدم سے
سلگ سلگ کے رہے اور پلک جھپک نہ سکے
ترس رہا ہو فضا کا مہیب سناٹا
سڈول پاؤں کی پائل مگر چھنک نہ سکے
کلی کے اذن تبسم کے ساتھ شرط یہ ہے
کہ دیر تک کسی آغوش میں مہک نہ سکے
میں سوچتا ہوں کہ یہ تیری بے حجاب ہنسی!
مزاج زیست سے اس درجہ مختلف کیوں ہے
یہ ایک شمع جسے صبح کا یقین نہیں
جگر کے زخم فروزاں سے منحرف کیوں ہے
بھرا ہوا ہے نگاہوں میں زندگی کے دھواں
بس ایک شعلۂ شب تاب میں شرر کیوں ہے
مرے وجود میں جس سے کئی خراشیں ہیں
وہ اک شکن ترے ماتھے پہ مختصر کیوں ہے
جمی ہوئی ہے ستاروں پہ آنسوؤں کی نمی
ترے چراغ کی لو اتنی تیز تر کیوں ہے
نئے شوالے میں جا کر کسی کے تیشے نے
بہت سے بت تو گرائے بہت سے بت نہ گرے
بس ایک خندۂ بے باک ہی سے کیا ہوگا
لہو کی زحمت اقدام بھی ضروری ہے
ذرا سی جرأت ادراک ہی سے کیا ہوگا
گریز و رجعت و تخریب ہی سہی لیکن
کوئی تڑپ، کوئی حسرت، کوئی مراد تو ہے
تری ہنسی سے تو میری شکست ہے بہتر
مری شکست میں تھوڑا سا اعتماد تو ہے
- کتاب : Kulliyat-e-Mustafa Zaidi(Qaba-e-Saaz) (Pg. 70)
- Author : Mustafa Zaidi
- مطبع : Alhamd Publications (2011)
- اشاعت : 2011
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.