یہ چھلکتا ہوا جام
میں اسے پی نہ سکوں گا ساقی
آزمائی ہوئی شے
ذائقہ تلخ
اثر پھیکا ہے
چند لمحوں کا سرور
جیسے اک ماہ جبیں دوشیزہ
مسکراتی ہوئی تیزی سے گزر جاتی ہے
چند لمحوں کا سرور
تشنگی ساغر مے سے بھی کہیں جاتی ہے
توڑ دے جام و سبو
تشنگی نام ہے جینے کا
مجھے جینے دے
تشنگی روز ازل سے ہے رفیق دل و جاں
تشنگی وجہ طلب
ذوق طلب حسن طلب
تشنگی پر ہے زمانے کا مدار
راتیں جو آنکھوں ہی آنکھوں میں بسر ہوتی ہیں
راتیں جو پچھلے پہر اشکوں سے منہ دھوتی ہیں
صبح ہوتی ہے تو پی جاتا ہے سورج ان کو
رات ڈھل جاتی ہے شبنم کے حسیں قطروں میں
صبح دم پھولوں کے لاکھوں ساغر
منتظر ہوتے ہیں سورج کے لیے
یہ صبوحی
کہ جسے پی کے دمک اٹھتا ہے
روئے خورشید جہاں تاب
شعاعیں جس کی
ناگنیں بن کے ہر اک بوند کو پی جاتی ہیں
بوند آنسو کی ہو
یا شبنم کی
کرۂ ارض پہ باقی نہیں رہنے پاتی
خشک ہو جاتے ہیں سب
گل تر
دیدۂ تر
کوئی خورشید کی سفاک تپش پی جائے
رات کے چاند کا عالم دیکھو
چاند اک گھونٹ میں پی جاتا ہے سورج کی تپش
شبنم و اشک دعا کرتے ہیں
کہ زمانے میں سحر ہو نہ کبھی
اور یہ سلسلۂ تشنہ لبی
اے خدا دہر میں جاری ہے نہ جانے کب سے
کیسے مانوں
لب لعلیں کے ہزاروں بوسے
روح کی پیاس بجھا سکتے ہیں
عشق سیراب نہیں ہو سکتا
یہ چھلکتا ہوا جام
میں اسے پی نہ سکوں گا ساقی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.