مردہ خانہ
مری رگوں میں خنک سوئیاں پروتا ہوا
برہنہ لاشوں کے انبار پر سے ہوتا ہوا
ہوا کا ہاتھ بہت سرد، موت جیسا سرد
وہ جا رہا ہے، وہ دروازے سر پٹکنے لگے
وہ بلب ٹوٹ گیا، سائے ساتھ چھوڑ گئے
وہ ناچتے ہوئے بھیجے کسی رقیق سے تر
وہ رینگتے ہوئے بازو، وہ چیختے ہوئے سر
وہ ہونٹ نیم تراشیدہ، دانت نکلے ہوئے
وہ نصف دھڑ چلے آتے ہیں رقص کرتے ہوئے
وہ جسم سہمے ہوئے بند مرتبانوں میں
جو بات کی تو انہیں تیز و ترش زہر ملا
جو چپ ہوئے تو انہیں سولیوں پہ ٹانگ دیا
چھپی ہیں سیکڑوں بد روحیں ان فضاؤں میں
وہ گھورتی ہوئی آنکھیں کہیں خلاؤں میں
زمیں کے مالک دیرینہ کی تلاش میں ہیں
جراحتوں کے نشاں ہر خمیدہ لاش میں ہیں
اور اک صدا چلی آتی ہے، ہر جراحت سے
یہ سارے زخم مقدر ہوئے ہیں موت کے بعد
سکون لفظ و بیان و سکوت صوت کے بعد
بڑی بساند ہے ٹھٹھری ہوئی ہواؤں میں
میں گھر گیا ہوں لہو چاٹتی بلاؤں میں
وہ اک بریدہ زباں آئی لڑکھڑاتی ہوئی
ہنسی۔۔۔ ڈراؤنی سرگوشیوں میں کہنے لگی
تم اپنی لاش لیے بھاگ جاؤ جلدی سے
نہ سن سکو گے کہ ہیں موت کے فسانے بہت
متاع جسم سلامت کہ مردہ خانے بہت
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.