تجھے خود سے الگ کیسے کروں میں
تجھے خود سے الگ کیسے کروں میں
تجھے جب کھینچتا ہوں خود سے باہر
کھنچا آتا ہوں میں بھی ساتھ تیرے
عجب سا جسم میرا ہو گیا ہے
ہے جس میں پاؤں میرے ہاتھ تیرے
زباں اپنی اگر خاموش کر دوں
تری باتیں اشارے بولتے ہیں
جگر جاں دل نظر جس کو بھی دیکھو
ترا ہی نام سارے بولتے ہیں
ہوئی ہے جذب مجھ میں اس قدر تو
میں ہوں اخبار تو میری خبر تو
اب اپنے صفحوں میں تجھ کو پڑھوں میں
تجھے خود سے الگ کیسے کروں میں
رگوں میں اب میری تیرا لہو ہے
مری صورت بھی تجھ سی ہو بہ ہو ہے
بہت عرصے سے خود میں میں ہوں غائب
سراپا جسم میں اب تو ہی تو ہے
مکاں ہوں میں تو بام و در ہے میرا
تو خد و خال ہے پیکر ہے میرا
یہ تیرے عشق کا ہر سو اثر ہے
جمال و رنگ سب بہتر ہے میرا
وجود اکثر میں اپنا بھولتا ہوں
بھرم میں تیرے خود کو چومتا ہوں
تری وحشت میں ہی پاؤں سکوں میں
تجھے خود سے الگ کیسے کروں میں
ہے میری رات میں اب نیند تیری
ہم اک دوجے میں یوں کھوئے ہوئے ہیں
ہمارے خواب بھی اک دوسرے کے
بدن کو اوڑھ کر سوئے ہوئے ہیں
مرے تکیے میں تیری خوشبوئیں ہیں
مری چادر پہ تیری سلوٹیں ہیں
تو رہتی ہے مرے پہلو میں ہر دم
مرے بستر پہ تیری کروٹیں ہیں
ہو شامیں روز راتیں یا سحر ہو
کوئی بھی وقت ہو کوئی پہر ہو
تصور میں ترے ڈوبا رہوں میں
تجھے خود سے الگ کیسے کروں میں
یہ کہنے کو ہے میری داستاں پر
سبھی اوراق میں قصے ہیں تیرے
ہے نا ممکن انہیں گن پائے کوئی
میرے اندر کئی قصے ہیں تیرے
بدن ہوں میں میری انگڑائی ہے تو
میرے احساس کی رعنائی ہے تو
بدولت تیرے دنیا دیکھتا ہوں
نظر کا نور ہے بینائی ہے تو
منور ہو گیا بن رنگ روغن
میرا چہرہ تیرے جلوؤں سے روشن
تری رونق میں دنیا کو دکھوں میں
تجھے خود سے الگ کیسے کروں میں
میں شاعر تو مری رومانیت ہے
میں فرصت تو مری مصروفیت ہے
میری تقریر میں تیرے قصیدے
مری تحریر میں تیری صفت ہے
میری ہر بات ہے تعریف تیری
میرا ہر لفظ تیری کیفیت ہے
میں ساماں ہوں تو تو قیمت ہے میری
میں رتبہ ہوں تو میری حیثیت ہے
سمٹتی ہے وہاں ہر فکر میری
جہاں تو بول دے سب خیریت ہے
دعاؤں میں ترا ہی نام لوں میں
تجھے خود سے الگ کیسے کروں میں
کلائی میں تو چوڑی کا کھنکنا
غرض میں آئینہ تو ہے سنورنا
میں جیسے دشت میں ہوں راہ کوئی
تو اس پر اک مسافر کا گزرنا
میں جیسے تال دیتا ساز کوئی
تو رقاصہ کا اس لے پر تھرکنا
میں ہوں بے نور سی اک جھیل اور تو
ہے اس پر ماہ کامل کا اترنا
تو چہرہ خوب صورت میں ہوں پردہ
میرا مقصد تجھے محفوظ رکھنا
تیری زینت کا پہرے دار ہوں میں
تجھے خود سے الگ کیسے کروں میں
زباں اردو میں تو میری نفاست
اگر میں لکھنؤ تو ہے نزاکت
رعایا ہوں میں اس صوبے کا جس میں
ہمیشہ سے رہی تیری حکومت
اگر میں سر ہوں تو دستار تو ہے
میں وہ شمشیر جس کی دھار تو ہے
میں ہوں پوشاک تو ہے عطر میرا
میں ہوں روزہ تو پھر افطار تو ہے
مہینہ میں اگر رمضان کا تو
مبارک عید کا تیوہار تو ہے
نظیریں اور کتنی تیری دوں میں
تجھے خود سے الگ کیسے کروں میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.