وہ تلسی داس جس نے علم کا دریا بہایا تھا
وہ تلسی داس جس نے غیر کو اپنا بنایا تھا
وہ تلسی داس جو دنیا میں سورج بن کے چھایا تھا
وہ تلسی داس جو غم خواریوں میں مسکرایا تھا
خلوص دل سے میں اس کو عقیدت پیش کرتا ہوں
مرے پیش نظر اب تک مزاج حکمرانی ہے
بہت الجھی ہوئی اس دور ماضی کی کہانی ہے
مگر تلسی کی عظمت دوست دشمن سب نے مانی ہے
وہ رامائن کا لکھنا شاہکار زندگانی ہے
میں اس انسان کامل کو محبت پیش کرتا ہوں
یہ جو کچھ کہہ رہا ہوں میں حقیقت ہی حقیقت ہے
لب و لہجہ کی شیرینی محبت کی علامت ہے
وہ عالم ہو کہ جاہل آج ہر دل پر حکومت ہے
نظر انداز کرنا اس کی راہوں کو قیامت ہے
میں اپنی بزم میں اس کی ضرورت پیش کرتا ہوں
وہ تلسی جس کی گویائی سخن کی سربلندی ہے
سخن کی سربلندی فکر و فن کی سربلندی ہے
گل رنگیں وہ ہے جس سے چمن کی سربلندی ہے
اسی کی سربلندی سے وطن کی سربلندی ہے
میں احساس وقار ملک و ملت پیش کرتا ہوں
وہ تلسی جس کی رامائن کا اک اک سین گلشن ہے
وہ تلسی جس کا دنیائے ادب میں نام روشن ہے
وہ اک عالم ہے اک صاحب نظر ہے ماہر فن ہے
وہ اپنے دور کا ہومر ہے فردوسی ہے ملٹن ہے
میں اے تکمیلؔ اسے اپنی ریاضت پیش کرتا ہوں